Tuesday, February 21, 2012

Dr. Zaid Kaimoori ki 3 Ghazalein


                                                   3                                                    


ہنس ہنس کر کے درد چھُپانا ہم سے زیادہ جانے کون ؟
اور خاروں پہ چلتے جانا ہم سے زیادہ جانے   کون    ؟

نفرت کے بازاروں میں اب ختم ہوئی چاہت ساری
پیاسا رہ پیاسوں  کو پِلانا  ہم سے زیادہ جانے کون؟

گھر کے اندر روشنی کرنا ساری دنیا جانے ہے
رستے رستے دیپ جلانا ہم سے زیادہ جانے کون؟

گلشن میں جب پھول کھلیں تو حیرت کی کوئی بات نہیں
صحرا صحرا  پھول  کھلانا  ہم  سے  زیادہ  جانے  کون؟

ٹوٹ رہا ہے انسانوں کا ہر سوٗ دل جب دیکھو زید
ایسے میں دل دل سے ملانا ہم سے زیادہ جانے کون؟


ڈاکٹر زید کیموری


*****

                                                    4                                                  

فصیلیں نفرتوں کی جو گرا کر دل سے ملتا ہے۔
ہمارے شہر میں ایسا بشر مشکل سے ملتا ہے۔

محبت کے فسانے ہیں جہاں میں سیکڑوں  لیکن
محبت کرنے والا تو یہاں مشکل سے ملتا ہے۔

چراغِ طوٗر کے جلوے سمٹ آئے ہیں نظروں میں
یہ کیسا نوٗر سا دل کو تری محفل سے ملتا ہے ۔

کروٗں اس سے بھلا انصاف کی امید بھی کیسے
کہ جس منصف کا چہرہ بھی مرے قاتل سے ملتا ہے۔

مزا جنت کا ملتا ہے ہجومِ غم میں بھی اس دم
خوشی کا کوئی لمحہ جب کبھی مشکل سے ملتا ہے۔

مرے اسلاف گذرے ہیں جدھر سے اور جہاں سے بھی
ہراک رستہ ہی جاکر کے کسی منزل سے ملتا ہے۔

چھپانا سیکھ لے اے زید توٗ آغوش میں سورج
سہانی شام کا منظر بڑی مشکل سے ملتا ہے۔


ڈاکٹر زید کیموری


 *****

                                                 5                                                  

خوابِ غفلت سے جگا دیتی ہیں یادیں تیری۔
حسرتِ دید بڑھا     دیتی ہیں یادیں تیری۔

پیار کی راہ میں رکتے ہیں قدم جب میرے
مجھکو منزل کا پتہ دیتی ہیں یادیں تیری۔

جب کبھی چاند ستاروں کی تمنا کی ہے
تیری تصویر دکھا دیتی ہیں یادیں تیری۔

موت بن کر جو کبھی سامنے گردش آئی
زندگی اور بڑھا دیتی ہیں یادیں تیری۔

میری ویران سی آنکھوں کے ہراک گوشے میں
کچھ حسیں خواب سجا دیتی ہیں یادیں تیری۔

جب بھلانے کی کبھی زید نے کوشش کی ہے
جذبہ شوق   بڑھا    دیتی  ہیں  یادیں   تیری۔


ڈاکٹر زید کیموری


*****


Saturday, February 18, 2012

Dr. Zaid Kaimoori Ki Ghazalein





                       ڈاکٹر زید کیموری کی غزلیں                        


ڈاکٹر ایم۔ کے۔ زیدی زید کیموری پیشے سے داکٹر ہیں، مگر اردو ادب سے  انہیں بے حد محبت  ہے۔ یہ محبت کی انتہا ہی ہے  کہ زندگی کا نصف حصہ گذارنے کے بعد اردو پڑھنا اور لکھنا سیکھا اور شاعری میں بھی طبع آزمائی شروع کر دی۔ زید صاحب اچھی شاعری کرتے ہیں۔اردو ادب میں وہ نو وارد کی حیثیت رکھتے ہیں، مگر ان کی شاعری انکے پختہ ذہنیت کی ضامن ہے۔ ان کے کلام سے اس بات کا اندازہ بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کم مدت میں بھی انہونے  ادب کا عمیق مطالعہ کیا ہے۔ ان کی نظر سماجی تبدیلیوں، انتشار، کشمکش اور بدلائو پر بھی ہے۔

اردو ادب میں تمام نکتہ چینیوں اور مخالفتوں کے باوجود غزل کی آب و تاب، رنگینی اور اہمیت آج بھی برقرار ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ غزل نے ہر   زمانے میں اپنا مزاج اور  روش تبدیل کیا ہے اور حالات کے  پیشِ نظر فرسودہ اور بوسیدہ پیرہن ترک کر کےنیا پیرہن زیبِ تن  کیا ہے۔غزل کی رنگینی، شگفتگی،   برجستگی اور سادگی نے  آج بھی سب کو اپنا گرویدہ بنا   رکھا ہے۔بیشتر شاعروں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز غزل سے ہی کیا ہے۔

ڈاکٹر زید کیموری نے بھی صنفِ  غزل سے ہی اپنا ادبی سفر شروع کیا ۔ انہوں نے نظمیں بھی کہی ہیں۔ مگر نظموں کی بہ نسبت ان کی غزلیں زیادہ طرح دار، با وقار اور کامیاب  ہیں۔


غزلیں


1


میں نے چاہا تھا کیا اور کیا دے گئے۔
زندگی کی مجھے پھر دعا دے  گئے۔

غیر ہوتے تو شکوہ نہ ہوتا کوئی
لوگ اپنے ہی تھے جو دغا دے گئے۔

بھرنے والا ہی تھا زخم دل کا مگر
یادِ ماضی کا پھر سلسلہ دے گئے۔

عمر بھر ساتھ دینے کا وعدہ تھا پھر
ہجر کی کیوں مجھے وہ سزا دے گئے۔

سانس تھمنے کو تھی، سامنے آکے تم
عزم جینے کا پھر اک نیا دے گئے۔

زخم کھاتے رہو مسکراتے رہو
حکم مجھ کو مرے ہمنوا دے گئے۔



2


یقیں کرو ! کہ اندھیرے مٹائیں گے اک دن۔
بدن تراش کے سورج کا لائیں گے اک دن۔

لپٹنے دو    ذرا   خاروں کو   میرے  پائوں سے
کہ منزلوں کا پتہ یہ بتائیں گے اک دن۔

غبار   جان   کے  ٹھکرائو    نہ    ہمیں       ایسے
ستارے بن کے تمہیں ہم دکھائیں گے اک دن۔

جلاتے کیوں ہو ؟ پڑھو تو کتابِ زیست مری
کہ لفظ لفظ وفائیں سکھائیں گے اک دن۔

ہمیں بہار، ہمیں ہیں چمن، ہمیں گل بھی
ہرایک ذرے پہ خشبوٗ لٹائیں گے اک دن۔

سنبھال کر کے ابھی ظرف ہم نے رکھا ہے
تمہارے شہر میں اس کو لٹائیں گے اک دن۔

ابھی تراش رہے ہیں اے زید لفظوں  کو
محبتوں کے فسانے سنائیں گے اک دن۔



*****