Saturday, February 18, 2012

Dr. Zaid Kaimoori Ki Ghazalein





                       ڈاکٹر زید کیموری کی غزلیں                        


ڈاکٹر ایم۔ کے۔ زیدی زید کیموری پیشے سے داکٹر ہیں، مگر اردو ادب سے  انہیں بے حد محبت  ہے۔ یہ محبت کی انتہا ہی ہے  کہ زندگی کا نصف حصہ گذارنے کے بعد اردو پڑھنا اور لکھنا سیکھا اور شاعری میں بھی طبع آزمائی شروع کر دی۔ زید صاحب اچھی شاعری کرتے ہیں۔اردو ادب میں وہ نو وارد کی حیثیت رکھتے ہیں، مگر ان کی شاعری انکے پختہ ذہنیت کی ضامن ہے۔ ان کے کلام سے اس بات کا اندازہ بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کم مدت میں بھی انہونے  ادب کا عمیق مطالعہ کیا ہے۔ ان کی نظر سماجی تبدیلیوں، انتشار، کشمکش اور بدلائو پر بھی ہے۔

اردو ادب میں تمام نکتہ چینیوں اور مخالفتوں کے باوجود غزل کی آب و تاب، رنگینی اور اہمیت آج بھی برقرار ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ غزل نے ہر   زمانے میں اپنا مزاج اور  روش تبدیل کیا ہے اور حالات کے  پیشِ نظر فرسودہ اور بوسیدہ پیرہن ترک کر کےنیا پیرہن زیبِ تن  کیا ہے۔غزل کی رنگینی، شگفتگی،   برجستگی اور سادگی نے  آج بھی سب کو اپنا گرویدہ بنا   رکھا ہے۔بیشتر شاعروں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز غزل سے ہی کیا ہے۔

ڈاکٹر زید کیموری نے بھی صنفِ  غزل سے ہی اپنا ادبی سفر شروع کیا ۔ انہوں نے نظمیں بھی کہی ہیں۔ مگر نظموں کی بہ نسبت ان کی غزلیں زیادہ طرح دار، با وقار اور کامیاب  ہیں۔


غزلیں


1


میں نے چاہا تھا کیا اور کیا دے گئے۔
زندگی کی مجھے پھر دعا دے  گئے۔

غیر ہوتے تو شکوہ نہ ہوتا کوئی
لوگ اپنے ہی تھے جو دغا دے گئے۔

بھرنے والا ہی تھا زخم دل کا مگر
یادِ ماضی کا پھر سلسلہ دے گئے۔

عمر بھر ساتھ دینے کا وعدہ تھا پھر
ہجر کی کیوں مجھے وہ سزا دے گئے۔

سانس تھمنے کو تھی، سامنے آکے تم
عزم جینے کا پھر اک نیا دے گئے۔

زخم کھاتے رہو مسکراتے رہو
حکم مجھ کو مرے ہمنوا دے گئے۔



2


یقیں کرو ! کہ اندھیرے مٹائیں گے اک دن۔
بدن تراش کے سورج کا لائیں گے اک دن۔

لپٹنے دو    ذرا   خاروں کو   میرے  پائوں سے
کہ منزلوں کا پتہ یہ بتائیں گے اک دن۔

غبار   جان   کے  ٹھکرائو    نہ    ہمیں       ایسے
ستارے بن کے تمہیں ہم دکھائیں گے اک دن۔

جلاتے کیوں ہو ؟ پڑھو تو کتابِ زیست مری
کہ لفظ لفظ وفائیں سکھائیں گے اک دن۔

ہمیں بہار، ہمیں ہیں چمن، ہمیں گل بھی
ہرایک ذرے پہ خشبوٗ لٹائیں گے اک دن۔

سنبھال کر کے ابھی ظرف ہم نے رکھا ہے
تمہارے شہر میں اس کو لٹائیں گے اک دن۔

ابھی تراش رہے ہیں اے زید لفظوں  کو
محبتوں کے فسانے سنائیں گے اک دن۔



*****



No comments:

Post a Comment